Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر21 آخری قسط

زبرین سے بات کرنے کے بعد وہ اس قدر بےچین اور خوش تھی کہ خود پر قابو نہ پاتے ہوئے جلدی سے بیڈ سے اٹھی اور روم سے نکلتی ہوئی سیڑھیاں طے کرکے نیچے آئی،طاہر علوی جو اسکے کمرے کے پاس سے گزر رہے تھے،وہ نتاشہ اور زبرین کے بیچ ہونے والی باتیں سُن چکے تھے،اور اب ایک شیطانی مسکراہٹ لیے وہ نتاشہ کو گھر سے نکلتا دیکھ خود بھی نیچے آئے، "منصور۔۔۔کار نکلواؤ۔۔۔" نتاشہ کے جانے کے بعد انہوں نے اپنے سرونٹ سے کہا، گارڈز کے روکنے پر وہ انہیں اگنور کرتی تیزی سے مینشن سے نکلتی روڈ پر آئی تھی،پھر ایک ٹیکسی کر کے زبرین کے فلیٹ کی طرف جانے لگی،آج وہ بےتحاشہ خوش ہوئی تھی زبرین کی پکار پر،دل جیسے اب تک بےیقین تھا کہ اس ظالم کو احساس ہوگیا ہے،وہ بس جلد سے جلد اسکے پاس پہنچنا چاہتی تھی اور پھر اسے گڈ نیوز بھی تو دینی تھی،کتنا کچھ تھا اسے بتانے کے لیے،اپنے جذبات پر وہ قابو نہ کر پائی تو اچانک بھبھک کر رودی،پر اس بار وہ خوشی سے روئی تھی،ایک عجیب سا احساس ایک عجیب طلسم نے اسے اپنے لپیٹ میں لیا تھا،جیسے قسمت نے ایک مرتبہ اچانک اس سے سب کچھ چھینا تھا کہ وہ کچھ سمجھ نہیں پائی تھی ویسے ہی،بلکل ویسے ہی آج اسے اچانک سب کچھ لوٹا رہی تھی کہ وہ کچھ بھی سمجھنے کے لائق نہیں رہی تھی،بار بار موبائل میں زبرین کی تصویر دیکھ کر وہ روتے روتے ہنسنے لگتی،پر اچانک اسکے دماغ میں ایک خیال آیا،یمنا کو تو وہ اپنی خوشی میں بھول ہی گئی،ایک نظر اس نے باہر دیکھا،وہ بس پہنچنے والی تھی،پھر جلدی سے یمنا کا نمبر ڈائل کرنے لگی، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "تم نے مجھے اتنا ارجنٹ کیوں بلایا۔۔۔؟" یمنا قریبی کیفے کے باہر کھڑی تیمور سے استفسار کررہی تھی،تیمور نے کال پر پتا نہیں کیوں اسے جلدی سے کیفے میں آنے کا کہا تھا،یمنا کے اس وقت پوچھنے پر اس نے ضروری بات کا کہا پر اب یمنا کے سامنے کھڑے رہ کر پوچھنے پر وہ کچھ جھجھک رہا تھا، "بول دے میجر تیمور۔۔۔۔" دل میں خود کو حوصلہ دیتے وہ سوچ رہا تھا، "آ۔۔۔ا۔۔۔پہلے اندر چلتے ہیں۔۔۔" مسکراکر بولتے وہ کیفے میں انٹر ہونے لگا، "جو بولنا ہے یہی بولو۔۔۔میں نتاشہ کو یونہی چھوڑ کر آئی ہوں۔۔۔اسکی دوائی کا ٹائم بھی ہونے والا ہے۔۔۔" یمنا رِسٹ واچ کو دیکھتی تفکر سے بولی پھر تیمور کو دیکھنے لگی، "یمنا۔۔۔۔میں۔۔۔یار کیسے کہتے ہیں۔۔۔" نروس ہوتے ہوئے وہ بآواز بول گیا، "کیا؟" یمنا نے حیرت سے پوچھا البتہ اسکے ایکسپریشن دیکھ کر وہ کسی نتیجے پر پہنچ ہی چکی تھی تبھی سفید گالوں میں ہلکی سی سرخی گھلنے لگی تھی، "وہ۔۔۔میں۔۔یمنا۔۔میں تم سے۔۔۔نہیں۔۔۔کیا تم۔۔۔آہاں۔۔۔ایک منٹ۔۔۔" ہچکچا کر بولنے کی کوشش کرتا وہ اچانک رکا پھر ایک گہری سانس بھرتا خود کو نارمل کرنے لگا، "ہاں۔۔۔تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یمنا میں۔۔۔میں تم سے بہت بہت بہت محب۔۔۔۔۔" اسکا جملہ یمنا کے فون پر اچانک ہوتی بیل پر ادھورا رہ گیا،یمنا جو سرخ ہوتے رخسار سمیت اسکے کہے جملے کو پوری توجہ سے سن رہی تھی اچانک چونکی، "ایک منٹ رکو۔۔۔" نتاشہ کا نمبر دیکھ کر کہتے ساتھ اس نے کال ریسیو کی،پر دوسری طرف سے نتاشہ نے جو اسے خبر سنائی یمنا بےساختہ اپنا سر پکڑ گئی، "نتاشہ۔۔۔تم ایسا کچھ نہیں کرو گی۔۔۔تم۔۔۔۔تم پاگل لڑکی۔۔۔اففف۔۔۔اچھا سنو۔۔۔نتاشہ مت جاؤ۔۔۔۔نتاشہ۔۔۔ہیلو۔۔ہیلو۔۔۔" وہ بوکھلاتی ہوئی دائیں بائیں چکر لگاتی تیزی سے نتاشہ کو زبرین کے فلیٹ پر جانے سے منع کر رہی تھی پر دوسری جانب نتاشہ جو خوشی سے ہواؤں میں اڑنے لگی تھی،اسکی باتیں ان سنی کرتے کال کاٹ گئی، "کیا ہوا یمنا۔۔۔" تیمور اسے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے دیکھ تشویش سے پوچھا "تیمور۔۔۔وہ۔۔۔تیمور۔۔۔نتاشہ۔۔۔" "کیا ہوا ہے نتاشہ کو۔۔۔بولو تو سہی۔۔۔" اسے دونوں بازوؤں سے تھام کر تیمور نے نرمی سے پوچھنا چاہا پر اچانک یمنا نے اسے جھٹکے سے دھکا دیا، "وہ جانور مار ڈالے گا اسے تیمور۔۔۔۔وہ کیوں جارہی ہے وہاں پر۔۔۔۔میں۔۔۔میں ایسا کچھ نہیں ہونے دونگی۔۔۔" پاگلوں کی طرح چیخ کر اب آہستگی سے آنکھیں پھیلاکر بڑبڑاتے ہوئے وہ تیمور کو کہیں سے بھی وہ یمنا نہیں لگی جو ابھی پچھلے لمحے اسکے سامنے سنجیدگی سے کھڑی تھی، "مجھے۔۔۔جانا ہوگا۔۔۔مجھے۔۔۔" کہتے ساتھ یمنا بھاگتے ہوئے اپنی کار کی طرف گئی، "یمنا رکو۔۔۔" تیمور بھی اسے پکارتا پیچھے ہی آیا پر کار تک پہنچ کر اچانک یمنا کے رکنے پر وہ بھی رکا،یمنا جھٹکے سے اسکی طرف پلٹی تھی،پر اب جو اسکے چہرے پر تاثرات تھے وہ تیمور کو ساکت کرنے کے لیے کافی تھے، "تیمور۔۔۔نتاشہ کی بےگناہی کا کوئی ثبوت تو نہیں پر گواہ ضرور تھا۔۔۔۔اور وہ گواہ میں تھی۔۔۔۔مجھے معاف کردینا۔۔۔" اذیت بھرے لہجے میں بولتے ساتھ وہ کار میں بیٹھی تھی،پھر کار سٹارٹ کر کے تیزی میں وہاں سے نکلی،میجر تیمور کو یونہی ساکت کھڑا چھوڑ کر، کار فل سپیڈ میں چلائے یمنا نے ساتھ ہی پولیس کا نمبر ڈائل کیا تھا،دل میں شدت سے دعا جاری تھی کہ اسکی بےگناہ دوست کو کچھ نہ ہو، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلیٹ کے باہر ٹیکسی رکنے پر نتاشہ کی سوچ بھی رکی تھی،وہ پیسے پے کر کے نکلی ساتھ ہی تیزی سے قدم بڑھائے لفٹ کی طرف گئی،اہنے فلور کے گیٹ پر پہنچ کر وہ آہستگی سے ناک کرنے لگی،پر اسے حیرت ہوئی جب ناک کرتے وقت دروازہ خود بہ خود کھلتا چلا گیا،اندر قدم رکھنے پر اچانک اسکی آنکھوں میں وہ منظر آیا جب زبرین نے شادی کی رات اسکا خوبصورت استقبال کیا تھا،پھولوں کی بارش،ہر طرف پھول ہی پھول،پر منظر بدل کر اچانک حال میں آیا،وہ سجا ہوا فلیٹ اب بلکل گنجان خالی سا لگ رہا تھا،نتاشہ کی آنکھیں بےساختہ ڈبڈبائیں،پلکیں جھپکتے وہ قدم با قدم چلتی ہوئی لاؤنجکے بیچوں بیچ کھڑی ہوئی،اپنی ہیزل رنگ آنکھوں میں وہ فلیٹ کا ایک ایک نقش اتار رہی تھی،سب کچھ کتنا عجیب اور خالی سا لگ رہا تھا،جیسے یہاں پر پہلے کوئی تھا ہی نہیں،پر اچانک دل نے اسکی ڈھارس باندھی کہ بس کچھ پل اور پھر سب ٹھیک ہو جائے گا،اسکا آشیانہ پھر بسے گا،اور اس بار اس آشیانے میں ایک نہایت ہی خوبصورت اضافہ ہوگا،اس اضافے کا سوچتے ہی نتاشہ بھیگی آنکھوں سمیت کُھل کے مسکرائی، "آگئی میری جان۔۔۔" اچانک پیچھے سے آتی آواز پر نتاشہ جھٹکے سے پلٹی تھی،سامنے زبرین لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے کھڑا تھا،پر نتاشہ اسکی عجیب سی مسکراہٹ سے انجان بھاگتے ہوئے زبرین کے قریب گئی اور سیدھا اسکے سینے سے جالگی،زبرین کی کشادہ پیشانی پر لاتعداد بل آئے،دانت بھینچے وہ بمشکل اس لڑکی کی قربت برداشت کررہا تھا،دل چاہ رہا تھا کہ ابھی دھکا دے کر اسے دور کردے،جبکہ دوسری طرف وہ اسکی مکروہ سوچوں سے بےخبر اس ظالم درندے کے گلے لگے اپنی گھٹن ختم کرنے کی کوشش کررہی تھی،جب رو رو کر ہلکان ہوئی تب ہلکی آواز میں نتاشہ اسکے گلے لگے ہی کہنے لگی، "میں نے بہت مِس کیا آپ کو ادیان۔۔۔۔میں بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں ابھی۔۔۔۔مجھے یقین تھا ادیان کے ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔اور دیکھیں۔۔۔اب سب ٹھیک ہوگیا۔۔۔" آسودگی سے کہتے ہوئے وہ یونہی اسکے گلے لگے آنکھیں موند گئی، "نہیں ڈارلنگ۔۔۔ابھی ایک کام رہتا ہے۔۔۔پھر اسکے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔" سفاکیت سے پھنکارتے ہوئے اس نے نتاشہ کو تقریباً دھکا دیا،وہ بمشکل سنبھلتے ہوئے خود کو گرنے سے بچاگئی تھی،اب تک جو خوشی تھی اسے پل میں ہوا ہوئی تھی،یہ کیا کررہا تھا وہ۔۔۔نتاشہ ناسمجھی سے زبرین کو دیکھنے لگی جسکے چہرے پر اب بلکل پتھریلے تاثرات تھے،پر اچانک وہ دو قدم پیچھے ہٹی جب زبرین نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے پسٹل نکالی،نتاشہ کی نظریں بےیقین ہوئی تھیں،چھٹی حس مسلسل اسے اشارہ کررہی تھی وہاں سے بھاگنے کا پر وہ بت بنی ایک ہی جگہ کھڑی تھی،شاید یہ دیکھنے کہ وہ ظالم آخر اور کتنی حدیں پار کر سکتا ہے،معصوم دل بری طرح کانپ کے رہ گیا اس سیاد کی پسٹل کا رخ اپنی طرف دیکھ کر، "جانتی ہو۔۔۔اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔کیونکہ اب جو میرا انتقام پورا ہونے والا ہے۔۔۔۔تم بیوقوف لڑکی۔۔۔چچچچہ۔۔۔۔۔۔پھر محبت نام کی بلا کے جال میں پھنس گئی۔۔۔۔" سفاکیت سے بولتا وہ ہنستے ہوئے انگلی سے پسٹل لوڈ کرنے لگا،جبکہ نتاشہ کے لب جیسے ایک دوسرے میں پیوست ہوگئے،ہیزل رنگ آنکھوں سے نکلتے آنسو رک چکے تھے،بنجر ہوئی نظروں سے وہ صرف مقابل کو دیکھ رہی تھی،جسکے سینے میں شاید نہیں یقیناً پتھر ہی تھا،دماغ کے کونے میں چھپی ایک بات۔۔۔۔،ہاں وہ بات،وہ کیسے بھول گئی،اچانک ذہن میں جھماکا ہوا،اور نتاشہ کے جب سے ایک دوسرے میں پیوست لبوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی، "اد۔۔۔ادیان۔۔۔ہمارا بچہ۔۔۔" ٹھاہ کی زور دار آواز کے ساتھ نتاشہ علوی کے الفاظ دم توڑ گئے،اسکا پورا جسم سنسنا کر رہ گیا،سینے میں دل کے بلکل قریب کچھ تیزی سے پیوست ہوتا اندر تک اتررہا تھا،دل بری طرح کچلایا،دھیرے سے سر جھکا کر اس نے ایک نظر اپنے سینے کی طرف دیکھا جہاں سے تیزی سے خون نکل رہا تھا،دھندلائی ہیزل آنکھیں واپس اٹھ کر مقابل کھڑے جلّاد سے ٹکرائیں کیا کچھ نہیں تھا ان آنکھوں میں،محبت میں فریب کی اذیت،ایک بار پھر بھروسہ ٹوٹنے پر تکلیف درد،ایک آنسو تیزی سے اسکے عارض پر پھسلا تھا،دوسری طرف زبرین سفاکیت سے مسکراتا نتاشہ کو نیچے گرتا دیکھ رہا تھا،اس ظالم کے اندر تک جیسے ایک سکون سا اترا تھا،سرشاری کے نشے میں دھت وہ اپنے سینے میں اچانک بری طرح ٹوٹتے پتھر کو بھی نظر انداز کرگیا،ہاں وہ پتھر جھٹکے سے مکمل ٹوٹا تھا اور اسکے اندر ایک دھڑکتا تڑپتا دل مچلایا تھا،پر اس انسان نے آج تک کسی کی نہ سنی وہ اپنے اس نئے نئے دھڑکتے دل کی کیا سنتا، "ہیپی برتھ ڈے ڈارلنگ!" تمسخر اڑاتی نظروں سے اسے دیکھتا وہ ہنس کر کہا تھا،نتاشہ اس ظالم سیاد کو آنکھیں پھیلائے دیکھے رہ گئی،سالگرہ کا کتنا نایاب تحفہ دیا تھا اس سیاد نے اسے، "یہ تکلیف کچھ نہیں ہے اس اذیت کے آگے جو مجھے ملی۔۔۔" سنگ دلی سے مسکراتے ہوئے وہ بولا تھا،تف تھا اسکے ظلم پر، "اس سنگ دل کی سفاکیت تو دیکھ، سینے پر خنجر رکھے کہتا، میری آنکھوں میں اذیت تو دیکھ۔" نتاشہ سینے پر ہاتھ سختی سے جمائے زبرین کو دیکھتے ہوئے بے ساختہ نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی،پر اچانک ایک اور پر زور فضا میں تیز کانوں کو چیرتی آواز بلند ہوئی تھی اور ایک اور چھوٹی مگر انتہائی سخت چیز جھٹکے سے نتاشہ کو اپنی پشت پر پیوست ہوتی محسوس ہوئی اور بس۔۔۔۔یہاں تک نتاشہ علوی کا ضبط ٹوٹا،اچانک ابھرتی اسکی اذیت سے بھری دلخراش چیخ پورے فلیٹ میں یوں بلند ہوئی جیسے وہاں کی چاروں دیواریں پھٹنے لگی ہوں،سامنے کھڑے سیاد کے وار سے ابھی وہ سنبھلی نہ تھی کہ پیچھے سے بھی کسی جلاد نے اس پر وار کیا تھا،زبرین افتخار جو مسکراتے ہوئے ایک نظر چھت کو دیکھ کر واپس سامنے کھڑی اس بےوقوف لڑکی کو دیکھنے لگا تھا،پر اچانک ٹھاہ کی آواز پر اسکی بھی نظریں ساکت ہوئی تھیں،فضا میں معلق اپنے پسٹل تھامے ہاتھ کو دیکھ کر وہ بھی شاکڈ ہوا تھا کہ دوسری بار اس نے تو گولی نہیں چلائی تو پھر کون؟یہ سوچ اسکے سامنے دیکھنے پر رکی تھی،بلکہ مقابل کھڑے شخص کو دیکھتے ہی زبرین افتخار کی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں اچانک سِلب ہوئی تھی،درد برداشت سے باہر ہوتا محسوس کرکے نتاشہ نے ایک ہاتھ زمین پر ٹکا کر خود کو بمشکل سنبھالے گردن موڑ کر پیچھے سے وار کرنے والے کو دیکھا پر ہیزل رنگ آنکھیں پتھرائی تھیں "اس" پیچھے سے وار کرنے والے کو دیکھ،زمین پر ٹکا ہاتھ خود بہ خود ہٹا اور وہ سیدھا سر کے بل گری، "پا۔۔۔۔پا۔۔۔" سرد پڑتے لبوں پر نہایت ہلکی سی جنبش ہوئی تھی اور وہ نتاشہ علوی،اسکا دل دھڑکنا بند ہوا تھا،زرد چہرہ مکمل سفید ہوا،سوچا نہیں تھا کہ کبھی "وہ" ہستی بھی اسے دھوکہ دے گی،سامنے گیٹ پر کھڑا اسکا رہنما اسکا سرپرست اسکا جان سے عزیز باپ،طاہر علوی فریبی ہنسی ہنستے ہوئے ہاتھ میں پسٹل تھامے ایک نظر بےیقینی سے نیچے پڑی نتاشہ کو دیکھ کر اب زبرین کو دیکھنے لگے،جسکی حالت ابھی بلکل قابلِ بیان نہیں تھی،اسکا ہاتھ ابھی تک فضا میں معلق تھا،البتہ پسٹل چھوٹ کر اسکے ہاتھ سے نیچے گری تھی،سینے میں دھڑکتا دل بری طرح تڑپتے ہوئے اسے باخبر کررہا تھا کہ اس نے کچھ غلط۔۔۔۔کچھ بہت غلط کر ڈالا ہے،ساکت بےیقین نظریں آہستہ سے جھک کر زمین پر لیٹی کراہتی نتاشہ پر گئی،جو اس قدر جسمانی و اندرونی اذیت کے باعث صحیح سے کراہ بھی نہیں پارہی تھی،وہ صرف چھت کو گھورے ایک ہاتھ سینے تو دوسرا پیٹ پر رکھے کراہنے کی دشوار کوششیں کررہی تھی،اب زبرین افتخار کی آنکھوں پر سے انتقام کا کالا پردہ جھٹکے سے ہٹا تھا اور اس تڑپتے وجود کو دیکھ کر وہ بلکل یہ اندازہ کرسکتا تھا کہ وہ اس وقت کس قدر اذیتوں کے زد میں ہوگی،کیا کوئی باپ اپنی ہی بیٹی کو کبھی مار سکتا تھا،وہ بھی ایسا باپ جو کبھی اس بیٹی کے لیے اتنا فکرمند دکھتا تھا، "یہی سوچ رہے ہوگے کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔۔۔" وہ قہقہہ لگاکر بولے تھے پھر اچانک خاموش نظروں سے اپنے سامنے کھڑے اس شکستہ حال میں کھڑے پتلے نما مرد کو دیکھنے لگے،جس کا پور پور ابھی کان بنا مقابل کے منہ سے اپنی گرھے سلجھانے کے بارے میں کچھ سننے کا منتظر تھا، "ہا۔۔۔اچھے سے جانتا ہوں تمہیں میں زیبی۔۔۔۔تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں۔۔۔تم دنیا کے سامنے بھلے ایک سمجھدار نہایت عقلمند اور شاطر مرد ہو پر میرے سامنے۔۔۔ہنہہ۔۔۔میرے سامنے اب تک تم وہی جذباتی بچے ہو جو آدھی بات سننے کے بعد ہاتھ ہوا میں معلق کیے پوری بات سننے سے انکاری ہوجاتا ہے۔۔۔۔یقیناً تم نے وہ ویڈیو مکمل دیکھی نہیں ہوگی جس میں۔۔۔میں نے آخر میں صاف صاف کہا تھا کہ یہ لڑکی۔۔۔" اپنی بات روک کر انہوں نے نتاشہ کے تڑپتے وجود کی طرف اشارہ کیا، "یہ لڑکی دنیا کے سامنے میری عزیز بیٹی۔۔۔۔پر حقیقت میں یہ میری مرحوم بہن کی بیٹی۔۔۔میری بھتیجی تھی۔۔۔جس سے مجھے زرا لگاؤ نہیں تھا۔۔۔۔اوف۔۔۔ تم نے تو پھر یہ بھی نہیں سنا ہوگا کہ اس بیچاری کو میں نے قربانی کی بکری کیوں بنایا۔۔۔۔تاکہ۔۔۔میری عزیز بہن جس کے حصے میں میرے بےانصاف ماں باپ نے مجھ سے زیادہ پراپرٹی دی تھی۔۔۔۔ان پراپرٹی کو اپنا کرنے کے لیے ہی تو اس سونے کی چڑیا کے ساتھ میں کافی سالوں سے یہ ناٹک کررہا تھا۔۔۔۔" خباثت سے کہتے ہوئے انہوں نے پھر نتاشہ کو دیکھا جس کے چہرے پر رقم اذیت کا اندازہ لگانے کے قابل نہیں تھا،وہ خالی نظروں سے اس باپ کی شکل میں کھڑے بےدل انسان کو دیکھ رہی تھی جو مقابل اس ظالم سیاد کو اپنا کارنامہ باخوشی بتارہا تھا،معصوم دل میں ایک سوال ابھرا تھا کہ کیا وہ اتنی عرزاں تھی کہ جس کا دل چاہا اس کے جذبات سے کھیل گیا،جس قدر برا اور بھیانک جھٹکا اسے لگا تھا بلکل ویسا ہی ایک جھٹکا زبرین افتخار کو لگا تھا،یہ کیا کر بیٹھا تھا وہ،دماغ ایک دم خالی کورے کاغذ کی طرح ہوگیا تھا اسکا،جسکے سارے سطر ایک دم مٹ گئے تھے،لکھا تھا تو صرف اتنا کہ وہ گناہگار ٹہرا تھا،ایک معصوم کے جذبات و احساسات سمیت اسکی بےلوث محبت و بھروسے کا قاتل وہ بہت بڑا گناہگار ٹہرا تھا، "نتاشہ۔۔۔" گیٹ کے اندر تیزی سے داخل ہوتی یمنا نے جب سامنے روح افروز منظر دیکھا تو بے ساختہ چیختے ہوئے نتاشہ کے جانب بھاگی،اس کی دوست کا یہ حشر ہوگا وہ سچ کے رہ گئی،تیزی سے نتاشہ کی طرف آتے ہوئے وہ وہی زمین پر بیٹھ گئی، "ن۔۔نتا۔۔نتاشہ۔۔۔یہ۔۔۔کیا۔۔۔" روتے ہوئے بمشکل اسکے منہ سے الفاظ نکلے تھے،پر نتاشہ کی نظر ایک ہی طرف ساکت دیکھ وہ اسکی نظروں کا تعاقب کیے دیکھنے لگی،وہ دیوانی اب تک اس ظالم کو دیکھ رہی تھی،جو خود بھی اب اچانک سے صدیوں کا تھکا مسافر لگنے لگا تھا، یمنا۔۔۔" زبرین کے چہرے پر نظر جمائے نتاشہ نے پکارا، نتاشہ تمارا خون تیزی سے بہہ رہا ہے۔۔۔رکو۔۔۔ایمبولنس۔۔ یمنا پاگلوں کی طرح بڑبڑاتے جلدی سے فون نکالے نمبر ڈائل کرنے لگی پر نتاشہ نے اسکا فون جھٹک دیا، "نتاشہ۔۔۔" "میری بات۔۔۔سن۔۔سنو۔۔۔یمنا۔۔" وہ مدھم ہوتی سانسوں کے قریب بمشکل بول پارہی تھی،یمنا نے بےبسی سے ایک نظر پاس گرے اپنے موبائل کو دیکھا پھر نتاشہ کو،جس کے بولنے کے انداز سے صاف محسوس ہورہا تھا کہ اسکی سانس اکھڑنے لگی ہے، "یمنا۔۔" وہ پھر سے اسے پکاری ساتھ ہی اس ظالم کو دیکھنے لگی، "اسے کہنا مجھے معاف کردے۔۔کہ میں معاف نہیں کرپاؤنگی اسے۔۔پر نفرت۔۔ہہہ۔۔۔ساتھ نفرت بھی نہیں کرسکتی۔۔۔" اسکا کھوکھلا لہجہ اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا واضح ثبوت تھا،یمنا نے بےتحاشہ روتے ہوئے نفرت سے زبرین کو دیکھا جو خود بھی اب اپنے گناہوں کو نہ سنبھالتے ہوئے گرنے کے انداز میں گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا،اس دیوانی کے الفاظوں نے زبرین افتخار کو آسمان سے زمین پر لاکر پٹخا تھا،اتنے بڑے دھوکے اور فریب کے باوجود وہ کیسا اعلیٰ ظرف کا تمانچہ اسکے منہ پر مارگئی تھی،وہ جو غرور اور انتقام کی سربلندیوں کو چھوتا اپنی جیت کے نشے میں چُور تھا اب اس بےضرر سی لڑکی کے آگے بری طرح ہار گیا تھا،وہ جو خود سے برتر کسی کو نہ مانتا،اپنے آگے سب کو پیر کی دھول سمجھتا،آج خود وہ مٹی ہوکر رہ گیا تھا،اور اسکا اعتراف از خود اسنے کیا، "ہار گیا۔۔۔میں تمہاری محبت سے۔۔" وہ سرگوشی نما آواز میں تھکے ہوئے لہجے میں بولا تھا پر اسکی یہ ندامت سے بھرپور سرگوشی نتاشہ نے سنی تو ایک شکستہ مسکراہٹ نے اسکے سفید ہوتے لبوں کا احاطہ کیا، "ہار گئی۔۔میں آپ۔۔۔کی نفرت سے۔۔" چکناچور شکست سے بھرے لہجے میں وہ مشکل سے اپنے الفاظ ادا کرپائی،واقعی وہ شکست کھاچکی تھی اس ظالم کی شدت پسند نفرت کے آگے،اندھیرا ہوتی آنکھوں سے اس نے آخری مگر پیاس بھری نظروں سے اس ظالم کے ضبط سے سرخ چہرے کا دیدار کیا،اور بس، اسکی وہ ہیزل رنگ آنکھیں ساکت و ویران پڑگئیں، "نتاشہ۔۔نتاشہ۔۔" یمنا اسکے وجود کو جھنجھوڑتے ہوئے چیخی پر اس بےجان وجود میں کوئی جان ہوتی تو ہلتا وہ،وہ بنجر آنکھیں یونہی اس ظالم پر ٹکی تھیں،زبرین جو اسکے الفاظوں کے زیرِ اثر آنکھیں اذیت سے میچ گیا تھا،یمنا کی چیخ پر جھٹ سے آنکھیں کھولتا وہ نتاشہ کو دیکھنے لگا،مقابل کی زندگی سے بھرپور ہیزل آنکھیں اب بےرونق و ویران تھیں،اسکے شکستہ بےجان وجود میں زندگی کی کوئی رمق نہیں بچی تھی،وہ زندگی کا ہر ایک لمحہ کھل کے جینے والی،وہ ہواؤں میں اڑنے والی، "وہ ادیان نیازی عرف زبرین افتخار کی دیوانی "نتاشہ علوی"، وہ دردناک موت کو گلے لگا چکی تھی،" اس ظالم سیاد کے ظلم سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرتی وہ اسے کئی اذیتوں کے بیچ تن تنہا چھوڑ کر اس سے کافی دور جاچکی تھی جہاں سے واپسی ناممکنات میں شمار تھی، زبرین افتخار آنکھیں بےیقینی میں کھولے اپنے سامنے پڑے اس دیوانی کے بےجان وجود کو دیکھنے لگا جو اس سے بےلوث و بے تحاشہ محبت کی دعویدار تھی،جو اسکی ہر اذیت سہنے کے بعد بھی اسے احساس ہوجانے کی منتظر رہتی،جو اسکے ہاتھوں بےحد تڑپنے کے باوجود اسکی محبت کی سوالی رہتی،وہ تو اس سے معافی بھی نہ مانگ سکا تھا پر شاید یہی اسکی سزا تھی کہ دل میں یہ کلس ہمیشہ رہے،اور اس کلس سمیت گناہوں کے بوجھ تلے کتنی ہی اذیتیں تھیں جنکا اسے اکیلے تنہا سامنا کرنا پڑے گا،یہ سوچ اس مضبوط کبھی کسی سے نہ ڈرنے والے مرد "زبرین افتخار" کو زندگی میں پہلی مرتبہ کانپنے پر مجبور کر گئی،وہ جو انیس سال پہلے روتے ہوئے یہ قسم کھاچکا تھا کہ اب نہیں روئے گا وہ اب رورہا تھا،ضیاع کیا ہوتا ہے خالی دامن رہنا کیسا ہوتا ہے یہ آج کوئی زبرین افتخار سے پوچھتا،انیس سال پہلے بھی وہ اکیلا رہ گیا تھا اور آج بھی،پر ان دونوں اکیلے پن میں ایک چیز کا فرق تھا اور وہ فرق یہ تھا کہ،انیس سال پہلے وہ قسمت کے ہاتھوں اکیلا ہوا تھا اور آج۔۔۔۔،آج اس نے خود اپنے لیے تنہائی چن لی تھی، بری طرح روتے ہوئے وہ نتاشہ کے ساکت برف کے مانند ٹھنڈے ہاتھ کو تھامنے کے لیے ابھی اپنا ہاتھ آگے بڑھا ہی رہا تھا کہ یمنا نے تقریباً دھکا دیتے ہوئے اسے نتاشہ کے وجود سے دور کیا، "دور رہو اس سے تم وحشی۔۔اب بھی سکون نہیں ملا کیا تمہیں۔۔۔اب کونسا ظلم رہ گیا ہے۔۔۔بولو۔۔" وہ ہذیانی انداز میں چیخ کر اس شکستہ مرد سے پوچھنے لگی،جو دھندلی نظروں سے مسلسل نتاشہ کو دیکھ رہا تھا، "اوہ یمنا کم آن۔۔چلو ابھی یہاں سے۔۔" پیچھے کھڑے طاہر علوی کو یہ ڈرامہ بہت بورنگ سا لگا تبھی تنگ آکر انہوں نے کہا،یمنا اب چہرہ موڑ کر بےیقینی سے انہیں دیکھنے لگی، "آخر کس مٹی کے بنے ہیں آپ ڈیڈ۔۔۔کیوں رحم نہیں آتا آپ کو کسی پر۔۔" وہ کھڑی ہوتے ہوئے ان پر بھی چیخی تھی،زبرین کے کانوں میں اسکا لفظ "ڈیڈ" پڑا تو وہ اپنے اندھے پن پر مزید کلس کر رہ گیا تھا،تو مطلب وہ جو نتاشہ کی دوست ہونے کا ناٹک کرتی،اصل میں وہی ظاہر علوی کی بیٹی تھی،پر اب اس خبر کا کیا فائدہ،سامنے پڑے اس معصوم کے بےجان وجود کو تکتے ہوئے اسکا دل خون خون ہورہا تھا، "بکواس بند رکھو۔۔۔اور چلو یہاں سے۔۔" اب کی بار طاہر علوی کی آواز میں ناگواریت تھی، "نہیں جاؤں گی میں یہاں سے۔۔۔آپ دونوں کیسے۔۔۔ایک بار بھی نہیں سوچا کہ وہ ایکسیپٹڈ تھی۔۔" اس بار یمنا حلق کے بل چلاتے ساتھ اپنا سر جکڑ گئی،اسکے ان الفاظوں پر وہ جو زمین پر گڑرہا تھا،اسکے کان اچانک کھڑے ہوئے تھے،آنسو یک دم رکے تھے،کالی آنکھیں لہو ٹپکانے کے لیے ترس رہی تھیں پر وہ ساکت مجسمہ بن گیا تھا،دماغ کی خالی ہوتی سلب پر ایک لائن چلی تھی اور وہ لائن یہی تھی کہ وہ،زبرین افتخار،کس قدر نیچ گرا ہوا انسان ٹہرا تھا،جس نے اپنی ہی بیوی کے ساتھ ساتھ اپنا بچہ بھی ختم کردیا تھا،خود کو انصاف پسند سمجھنے والا وہ مرد آج سمجھا تھا کہ یقیناً بہتر انصاف والے رب کے ہوتے ہوئے کسی بھی ادنی کو یہ حق نہیں کہ وہ خود سب سے بڑا بنتے ہوئے انصاف کے نام پر کسی کو سزائیں دے،کاش۔۔۔۔،کاش کے وہ صبر کر لیتا،کاش کہ اس نے اپنا فیصلہ اس کی عدالت میں چھوڑا ہوتا جو یقیناً بہترین انصاف کرنے والا ہے تو آج یوں تہیہ داماں نہ رہتا،اسکا تڑپتا دل شدت سے خواہش کررہا تھا کہ وقت پلٹ جائے پر یہ خواہش صرف خواہش ہی رہ سکتی تھی کہ آج تک کبھی وقت کسی عام کے لیے پلٹا تھا جو اس جیسے گناہگار کے لیے پلٹتا،وہ بدنصیب تو اب یہ حق بھی نہیں رکھتا تھا کہ اس دیوانی کے سرد زندگی سے خالی وجود کو چھو بھی سکے،بس خالی کھوکھلی آنکھیں اسکی ویران کھلی آنکھوں کو تک رہی تھیں، "ارے جرم میں نے کیا۔۔۔ہر غلط کام میں۔۔۔میں ملوث تھی تو پھر اس بےگناہ کو مارنے کا کیا اصول۔۔۔۔کیوں مارا تم نے اسے۔۔" یہ سب بولتے ہوئے اسے بلکل ہوش نہیں تھا،دماغ میں یاد تھا تو یہ کہ اسکی عزیز دوست مقابل کے اندھے انتقام کی آج شکار ہوچکی تھی، فلیٹ کے کُھلے گیٹ کے باہر کھڑا تیمور جو کہ یمنا کا پیچھا کرتے یہاں تک آیا تھا،وہ اب اندر داخل ہونے لگا تھا پر یمنا کے جملے پر اسکا دل دھک سے رہ گیا،یہ وہ کیا کہہ رہی تھی،تو کیا وہ ہی تھی ان سب کے پیچھے،بےیقین آنکھیں ہذیانی انداز میں چیختی یمنا پر تھیں،اسکا صاف شفاف دل دو ٹکروں میں تقسیم ہوکر رہ گیا تھا،آج وہ اس پر اپنی محبت کا اعتراف کرنے والا تھا ہر ابھی جو یمنا نے اعتراف کیا تھا وہ اسکے لیے ناقابل یقین و برداشت تھا، تبھی تیمور کو سائیڈ پر کرتے اچانک پولیس کے افسران فلیٹ کے اندر داخل ہوئے،طاہر علوی جو یمنا کو یوں نتاشہ کے لیے روتا دیکھ ناگواریت سے آنکھیں گھومارہے تھے اب اچانک پولیس کے آنے پر وہ بوکھلائے،دو افسران نے ابھی انہیں پکڑ کر ہتھکڑی لگانی چاہی کہ وہ دھاڑنے لگے، "کس بیس پر مجھے گرفتار کررہے ہو تم لوگ۔۔" ان افسران کو جھٹک کر طاہر علوی نے ناگواری سے استفسار کیا، "آپکی حقیقی بیٹی یمنا علوی کے بیان دینے پر آپ کو گرفتار کیا جارہا ہے علوی صاحب۔۔" کمشنر صاحب فلیٹ میں داخل ہوتے ہوئے بولے،انکی بات پر طاہر علوی نے بےیقینی سے یمنا کو دیکھا جو اب بلکل بےتاثر چہرہ سمیت کھڑی تھی، "انہوں نے کال کر کے ہمیں صاف الفاظوں میں یہ بیان دیا ہے کہ یہ طاہر علوی یعنی کہ آپکی حقیقی بیٹی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ بزنس کے آڑ میں کیا کام سر انجام دیتے ہیں۔۔۔اور یہی کہ یہ خود بھی آپکے ہر کام میں آپکے ساتھ ملوث رہتی ہیں۔۔" کمشنر صاحب جیسے جیسے بول رہے تھے،طاہر علوی اتنے ہی جھٹکوں کے زد میں تھے،جس بیٹی کی پہچان دنیا سے انہوں نے اسی لیے چھپائی تھی کہ اسے کچھ نہ ہو آج وہی بیٹی انکی پِیٹ پر خنجر گھونپ گئی تھی،کتنا بھروسہ کرتے تھے وہ اس پر،پر بدلے میں اس نے کیا دیا،دھوکہ،دوسروں کو دھوکہ دینے والا آج خود اپنی بیٹی کے ہاتھوں دھوکہ کھا گیا تھا، بےشک اوپر والا بہترین انصاف کرنے والا تھا، انکے دماغ میں کئی طرح کی سوچیں گردش کررہی تھیں،ابھی افسران انکے قریب آتے کہ وہ ان افسران کو اچانک دھکا دیتے ہوئے باہر کی طرف بھاگے،باہر کھڑے تیمور میں اتنی بھی ہمت نہ تھی کہ وہ بھاگتے ہوئے طاہر علوی کو پکڑ سکتا، "پکڑو اسے۔۔۔" کمشنر کے بولتے ساتھ افسران طاہر علوی کے پیچھے بھاگے تھے، باقی دو لیڈی افسران یمنا کی طرف بڑھتے ہوئے اسکے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنانے لگیں،یمنا بلکل سپاٹ چہرہ لیے نیچے پڑے اپنی عزیز دوست کے بےجان وجود کو دیکھ رہی تھی،ہتھکڑی پہنا کر وہ افسران اسے باہر لے جانے لگیں،گیٹ پر پہنچ کر یمنا جو یونہی بےتاثر نظریں جھکائے چل رہی تھی،کچھ محسوس کر کے وہ اپنے قدم روک گئی،بھیگی پلکیں اٹھا کر اس نے سامنے نظریں جھکائے تیمور کو دیکھا،جو شاید اپنے بکھرے دل کو جوڑنے کی ناکام کوشش کیے سرخ چہرہ سمیت ضبط سے کھڑا تھا، "تم ایک بیٹر لڑکی ڈیسرو کرتے ہو میجر۔۔۔۔مجھ جیسی نہیں۔۔۔۔زندگی رہی تو پھر ملاقات ہوگی۔۔۔" نم لہجے میں اذیت سے مسکراکر بولتی وہ میجر تیمور کو بہت تھکی سی لگی، "دعا ہے پھر کبھی ملاقات ہی نہ ہو۔۔۔" سپاٹ تاثرات سمیت کہتا وہ اپنے ساتھ ساتھ یمنا کا دل بھی بری طرح توڑ گیا تھا،اسکا بےتاثر لہجہ یمنا کو شیشے کے مانند اپنے دل میں پیوست ہوتا محسوس ہوا، "دعا ہے۔۔۔کہ تمہاری دعا قبول ہو۔۔۔" یمنا کے تحیر مگر بھرائے لہجے پر تیمور نے تڑپ کر اپنا چہرہ اٹھایا،پر جب تک وہ لیڈی افسران سمیت وہاں سے جاچکی تھی،تیمور مڑ کر اسکی پشت کو دیکھنے لگا،آنکھیں بار بار دھندلا رہی تھیں پر وہ ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کی نمی پوچھتا اسے دیکھنے لگتا،حلق میں آنسوؤں کا پھندا اٹکا تھا،جسے وہ اپنے اندر اتارتا گیا،کچھ جوڑ صرف عارضی ہوتے ہیں جنکا ملنا ناممکن ہوتا ہے۔۔۔۔انکا جوڑ بھی انہیں میں سے تھا جسکی کوئی منزل نہیں ہوتی، اندر وہ گھٹنوں کے بل اب تک یونہی بیٹھا تھا،کمشنر نے آہستگی سے زبرین کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا، "زبرین۔۔۔" انکی پکار پر بھی وہ پلٹا نہیں تھا،پس بھیگی نظریں خاموشی سے اس بےجان وجود کو تک رہی تھیں،سینے میں تڑپتے دل نے اسے باور کرایا تھا کہ وہ سب کچھ پانے کی تغودد کرنے والا مرد آج اپنا سب کچھ گنوا بیٹھا تھا، "مجھے جیل جانا ہے۔۔۔" کافی دیر بعد نتاشہ کے وجود پر نظریں جمائے وہ تھکے ہوئے لہجے میں گویا ہوا تو کمشنر نے آہستگی سے نفی میں سر ہلایا، "تمہیں کوئی سزا نہیں ملنے والی۔۔۔۔آخر کو ملک کے اتنے بڑے اسمگلر کو جو پکڑوادیا ہے تم نے۔۔۔۔" ناچاہتے ہوئے بھی کمشنر کا لہجہ طنزیہ ہوا تھا پر اب زبرین نے نتاشہ کے وجود سے نظریں ہٹا کر اچھنبے سے انکی طرف دیکھا، "یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔مجھے سزا۔۔۔۔سزا ملنی چاہیے۔۔۔میں نے۔۔۔" رک کر اس نے ایک کلپتی نظر نتاشہ کے وجود پر ڈالی پھر کہا، "میں نے ایک معصوم کا قتل۔۔۔" "تمہیں میں نے پہلے بھی سمجھایا تھا کہ غلطی طاہر علوی کی ہے۔۔۔پر تم اس وقت انتقام کے نشے میں چُور تھے۔۔۔۔تبھی میری ایک نہ سنی تم نے۔۔۔۔اب تمہاری سزا یہی ہے کہ ساری زندگی تم سزا کے لیے تڑپو۔۔۔" ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہہ کر کمشنر اسے ساکت چھوڑ کر اٹھے تھے،پھر پاس کھڑی لیڈی افسران کو نتاشہ کو اٹھانے کا کہہ کر وہاں سے نکل گئے، "نہی۔۔۔نہیں۔۔۔رکو۔۔۔میری۔۔نتا۔۔نتاشہ۔۔۔" ان لوگوں کے جانے کے بعد وہ ہوش میں آیا تھا اور اب اچانک اٹھتے ہوئے گیٹ کی طرف بھاگا پر قدم لڑکھڑانے پر وہ نیچے گِرا تھا،سب کچھ ایک دم سے اچانک یوں ختم ہونا،اسکا دماغ یہ سب قبول کرنے سے انکاری تھا،ضیاع کی اذیت ختم ہوکے نہیں دے رہی تھی،کتنا بڑا گناہگار ہوا تھا وہ،ماں اور بہن کے جانے کے بعد ایک ہی تو وہ پری وش تھی جس نے اسے بےمطلب و مقصد اتنا چاہا،اتنی محبت کی،پر بدلے میں اس نے کیا کِیا،وہ جتنا یہ سب سوچ رہا تھا،دماغ کی رگیں اتنی ہی دکھ رہی تھیں،دل کا درد ہر لمحے بڑھتے جارہا تھا،اسکا آنسوؤں سے بھیگا وجیہہ چہرہ اندر کی تڑپ کا واضح ثبوت تھا، "نتاشہ۔۔۔مجھے۔۔۔معاف کردو۔۔۔۔" پورے فلیٹ میں اسکی دردناک آواز گونج رہی تھی پر اب کیا فائدہ،اسکی فریاد سننے والی تو جاچکی تھی،اس سے کوسوں دور،کبھی نہ واپس آنے کے لیے،زبرین افتخار آج ایک بار پھر اکیلا رہ گیا تھا،زندگی میں تنہا کسی کا ساتھ نہیں تھا اب اسکے پاس اور اب یہ ضیاع خود اسی کے ہاتھوں ہوا تھا،اسکے گناہ کا ازالہ اب شاید ساری زندگی کی بھرپائی سے بھی نہ ہوسکتا تھا،پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے وہ اپنے بال جکڑتا سجدہ ریز ہوگیا، ماتھے پر کچھ محلول محسوس کر کے اس نے ہاتھ نرمی سے پیشانی پر رکھا،وہ خون تھا،اس معصوم کا خون جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے بہایا تھا،بےپناہ اذیت میں آنکھیں میچتے ہوئے زبرین نے اپنی انگلیوں کے پوروں پر لگے اس پری وش کے خون کو چوم لیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پولیس کی بھاری نفری انکی کار کے پیچھے لگی تھی،بوکھلاکر کار ڈرائیو کرتے ہوئے وہ سنسان روڈز سے گزر رہے تھے کہ اچانک روڈ کے اختتام پر دو ریل کی پٹریوں کے قریب انکی کار رکی تھی،کئی بار کوشش کے بعد بھی جب کار سٹارٹ نہیں ہوئی تو طاہر علوی تیزی میں کار سے نکل کر پٹری پار کرنے لگے،پر آخر لائن کروس کرتے ہوئے ہی انکا ایک پیر پٹری میں پھنسا تھا، "شِٹ۔۔۔" غصے سے غراتے ہوئے وہ مسلسل پیر پٹری سے نکالنے کی کوشش میں لگے تھے تو دوسری طرف پولیس موبائیل وہاں تک پہنچی تھی، دور سے آتی ٹرین کی آواز پر طاہر علوی کے پٹری سے نکلنے کوشش کرتے پیر تھمے تھے،وہ بےیقین نظروں سے سیدھے ہاتھ سے تیزی میں آتی ٹرین کو دیکھنے لگے پھر جلدی سے اپنا پیر پٹری سے نکالنے کی بھرپور کوشش کرنے لگے،پولیس کے افسران نکل کر اسکی طرف بڑھنے لگے پر تیزی سے آتی ٹرین پر انکے بھی قدم رکے تھے،وہ پیر نکالنے کی کوشش میں ہلکان جو ہونے لگے تھے،اچانک ٹرین کے گزرنے کی آواز کے ساتھ طاہر علوی کی بھاری ہذیانی چیخ فضا میں بھی بلند ہوئی،وہ نیچے گرے تھے،جبکہ آدھا پیر کٹ کر پٹری میں ہی رہ گیا،درد سے نیچے مچلتے وہ اٹھنے ہی لگے تھے جب روڈ کے دوسرے طرف سے جنگل سے کیسے چند جنگلی کتے آئے اور انکے نیچے تڑپتے وجود پر ٹوٹ پڑے،وہ بری طرح چیختے ہوئے ان سب کو دور کرنے کی ناکام کوششیں کررہے تھے،طاہر علوی کا یہ عبرت ناک انجام ریل کے گزرنے کے بعد جب پولیس افسران نے دیکھا تو وہ لوگ بھی گھبراہٹ کا شکار ہوئے،جلدی سے آگے بڑھ کر وہ ڈنڈے سے مار مار کر ان جنگلی کتوں کو بھگانے لگے جنہوں نے مل کر طاہر علوی کا حشر عجیب سا کر کے رکھ دیا تھا،وہ چند لمحے پہلے دکھنے والا غاضب مرد اب پہچان میں نہیں آرہا تھا،کتوں کے بھاگ جانے پر پولیس افسران طاہر علوی کے بےسدھ پڑے وجود کے قریب گئے،سانسیں اسکی اب بھی چل رہی تھی، "اٹھاؤ اسے۔۔۔ابھی اندر کی ہوا بھی کھلانی ہے اسے۔۔۔" ایک سینیر افسر نے حکمیہ لہجے میں اسکے وجود کو حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا پھر پولیس موبائل کی طرف چل دیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیوز میں ہر طرف یہ خبر چل رہی تھی کہ ملک کے نامور بزنس مین کی حقیقی بیٹی نتاشہ نہیں یمنا علوی تھی،اسکا بیان جو فلیٹ پر جاتے ہوئے ہی اس نے پولیس کو دیا تھا،وہ ریکارڈ ہونے کے بعد اب نیوز پر چلایا جارہا تھا،ساتھ ہی نتاشہ کی موت کی خبر نیوز پر چلتی یہ خبر ازہا اور زین سمیت ہما نے بھی دیکھی تو اسکی گردن بےساختہ شرمندگی سے جھک گئی تھی،آج صبح ہی زین ازہا کے باپ کی ناراضگی دور کرنے کے غرض ازہا کو لے کر اسکے میکے آیا تھا،کافی سفارشات کے بعد آخر کار وہ ازہا کو معاف کرنے کے لیے راضی ہوئے تھے،ابھی وہ لوگ ازہا کے باپ کے کمرے میں لگے ٹی وی پر ہی یہ نیوز دیکھ رہے تھے،ایک طرف ہما جو ندامت سے اپنی گردن نہیں اٹھا پارہی تھی تو دوسری طرف زین بھی کہیں نہ کہیں دکھی تھا،اس نے تو نتاشہ کی زبرین کے لیے وہ اندھی محبت دیکھی تھی،پر اب اسکی موت پر وہ اندر ہی دکھ کے ساتھ ساتھ زبرین کی بلاجواز نفرت پر تاسف سے سرہلائے رہ گیا، "یہ آپکے ہاتھ میں کیا ہے آپی۔۔۔" ہما کچھ دیر پہلے خود ہی اٹھ کر روم سے نکلی تھی اور اب اندر داخل ہوتے ہوئے اسکے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا،تبھی ازہا نے کاغذ کی طرف اشارہ کر کے حیرت سے پوچھا، "میں یہ جاب اور نہیں کرسکتی۔۔۔" وہ نم لہجے میں بولتی سب کو حیران کرگئیں، "پر کیوں آپی۔۔۔؟" ازہا انکے پاس آتے ہوئے حیرت سے پوچھی، "بس خود کو اس جاب کے لائق نہیں سمجھتی۔۔۔' اپنی بات کہہ کر وہ روم سے نکلی تھیں،خود میں ہمت نہیں تھی سب کو یہ بتانے کے وہ بھی تو گناہگار تھیں اس معصوم کو اذیتوں میں دھکیلنے کی،آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں کو پونچھ کر انہوں نے تیمور کا نمبر ڈائل کیا،دل میں گھٹن سی ہونے لگی تھی پچھتاوے کی جو شاید ساری زندگی انکا پیچھا نہ چھوڑتا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 20 years later...🔥 رات کے ڈھائی بج رہے تھے،قبرستان کے بلکل کونے میں ایک قبر کے برابر میں گھٹنوں کے بل بیٹھا وہ انسان روز کی طرح آج بھی خاموشی سے سامنے بنی قبر کو تک رہا تھا،اوپر نصب تختے پر واضح درج تھا، نتاشہ علوی زوجہ زبرین افتخار سن 2000 تا 2020 دل میں زمانے بھر کے غموں کو سموئے وہ اس دن کے بعد سے آج بھی رونے کے قابل نہیں رہا تھا،بس جب اس قبر کو تکتا رہتا تو ایک آنسو،صرف ایک آنسو کی بوند آنکھوں سے چھلک کر قبر پر گرتی،ویران آنکھیں پچھلے 20 سالوں سے اس قبر کو روز تکنے کے باوجود بھی پیاسی رہتیں،وہ روز یہاں شام کے وقت آتا پر جب اس پری وش کی قبر کے برابر میں بیٹھتا تو ہمیشہ کی طرح بہت سی سوچوں کے جکڑ میں اسے رات دیر ہوجاتی پر اس کے قدم وہاں سے جانے سے انکاری ہی رہتے اور جاتا بھی کس لیے وہ وہاں سے،اسکے پیچھے کوئی انتظار کرنے والا تھوڑی تھا کوئی اپنا،ایجنٹس کی جاب سے ہٹنے کے بعد وہ اپنا گھر بار سب بیچ چکا تھا،اور اب ایک چھوٹے سے کھنڈر نما فلیٹ میں وہ کسی دور میں طاقت ور مضبوط مرد اب ایک کمزور ناتواں آدمی بن کر رہتا،وحشت سے بھری کالی آنکھوں کے گرد گہرے ہلکے اسکے کئی رت جگے کے عکاسی کرتے،پپڑی نما لب جو کبھی تراشے ہوئے عنابی لب ہوا کرتے تھے،اب ہر پل ایک دوسرے سے پیوست رہتے،سارا غرور طنطنہ سب کچھ اس بھیانک کبھی نہ بھولنے والے دن کے ساتھ ہی ختم ہوچکا تھا،تیمور اکثر اسکے فلیٹ میں آکر مہینے کے سامان کچھ کھانے پینے کو دے جاتا،ایک وہ ہی تھا جس نے اب تک زبرین افتخار کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا،ورنہ زین نے بھی نتاشہ کی موت کے بعد اس سے تعلق ترک کر دیا تھا،وجہ یہی تھی کہ اسکے لاکھ سمجھانے پر بھی زبرین اس وقت نہیں سنتا تھا تو اب پچھتاؤوں کے دلدل میں اسے اکیلا چھوڑے زین ازہا کو لیے بیرون ملک شفٹ ہوچکا تھا، "سر۔۔۔" تیمور کی آواز پر وہ جو کئی سال پہلے اپنے اور نتاشہ کے ساتھ گزارے پلوں میں گم تھا،اچانک ہوش میں آتا تیمور کو دیکھنے لگا،جو اب پچیس سال کے جوان لڑکے سے ایک بیالیس سالہ مرد بن چکا تھا،اسی واقعے میں جہاں زبرین نے نتاشہ علوی کو کھویا تھا وہی میجر تیمور نے اپنی شوخ طبیعت کو بھی کھودیا تھا،اب بمشکل کبھی کبھی وہ کسی بات پر مسکراتا بھی تو طنزیہ ورنہ اسکی سنجیدگی مقابل کو بھی وحشت میں مبتلا کر دیتی تھی یمنا کی سچائی کے بعد وہ بےوقوف سا مزاحیہ میجر ایک روکھے اور روڈ میجر میں تبدیل ہوچکا تھا،طاہر علوی سمیت یمنا کو بھی عدالت کی طرف سے عمر قید سنائی گئی تھی،تیمور نے زبرین کی خالی نظروں کو دیکھ بےساختہ نگاہ چرائی،یہ اسکے روز کا معمول تھا کہ رات اس عمارت سے واپسی پر وہ ضرور قبرستان آتا،جانتا تھا کہ زبرین پچھلے سالوں کی طرح روز نتاشہ کی قبر کے آگے بیٹھا حوش و حواس اور جگہ سے بیگانہ ہوئے اسکی قبر کو گھنٹوں تکتا تھا، "سر۔۔۔چلیں۔۔۔کافی دیر رات ہوگئی ہے۔۔۔" ہمیشہ کی طرح اس نے وہی جملہ کہا تھا،ساتھ ہی خطرناک خاموشی میں بسے ویران قبرستان پر ایک نظر دوڑائی،اسکی بات پر زبرین مسکرایا،اسکی مسکراہٹ کئی سالوں کی تھکی ہوئی مسافت کی عکاسی کر رہی تھی، "دیر تو واقعی ہوچکی ہے۔۔۔" قبر کے تخت پر لکھے اس پری وش کے نام کو دیکھتے ہوئے زبرین نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا پھر اسکی قبر پر ہاتھ پھیرتا ہوا اٹھا،ان بیس سالوں میں تیمور کے ساتھ ساتھ ایک پچھتاوا تھا جو اسکا ساتھ کبھی نہ چھوڑتا،جاتے جاتے اس نے مڑ کر ایک نظر دور سے اس قبر کو دیکھا،دل میں ہمشہ کی طرح درد کی ایک اذیت بھری ٹیس اٹھی تھی، کاش کے وہ یہ انتقام نہ لیتا۔۔۔۔۔کاش، تو آج اسے یوں "پچھتاوائے انتقام" نہ ہوتا، دل میں اذیت سے یہ بات سوچے وہ تیمور کے ساتھ اسکی کار کی طرف چل دیا، جاتے جاتے مجھے یہ کیسی سزا سُناگئی، میری زندگی موت سے بھی بدتر بناگئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments